ٹیگ کے محفوظات: مارو

کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو

رنگینیِ حیات کے مارو جواب دو
کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو
کیا مل گیا غریب کی دنیا اُجاڑ کے!
بولو تو اے لرزتے شرارو، جواب دو
کشتی ڈُبو ہی سکتا ہوں، طوفاں نہیں تو کیا
ہو کس لیے اُداس کنارو، جواب دو
بربادیاں سُکون بہ داماں ہیں یا نہیں
کچھ تو خزاں رسیدہ بہارو، جواب دو
کیا تلخیِ حیات سے دل کش ہے تلخ مے؟
اے تلخیِ شراب کے مارو، جواب دو
کیا میری آہ تم سے اُلجھتی ہے راہ میں ؟
سہمے ہوئے سے چاند ستارو، جواب دو
تھیں کس کے دم قدم سے یہاں کی وہ رونقیں
میری اُداس راہ گزارو جواب دو
کیا عزمِ سُوے صحنِ گلستاں ہے آج یا؟
آئی ہو میرے پاس بہارو، جواب دو
عزمِ شکیبؔ زار سے ضد تو نہیں تمھیں
یہ اہتمام کس لیے دھارو، جواب دو
شکیب جلالی

اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو

مریضِ غم کے سہارو! کوئی تو بات کرو
اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو
کہاں ہے، ڈوب چکا اب تو ڈوبنے والا
شکستہ دل سے کنارو! کوئی تو بات کرو
مرے نصیب کو بربادیوں سے نسبت ہے
لُٹی ہوئی سی بہارو! کوئی تو بات کرو
کہاں گیا وہ تمھارا بلندیوں کا جنون
بجھے بجھے سے شرارو! کوئی تو بات کرو
اسی طرح سے عجب کیا جو کچھ سُکون ملے
’’غمِ فراق کے مارو! کوئی تو بات کرو،،
تمھارا غم بھی مٹاتی ہیں مستیاں کہ نہیں
شرابِ ناب کے مارو! کوئی تو بات کرو
تمھاری خاک اُڑاتا نہیں شکیبؔ تو کیا
اُداس راہ گزارو! کوئی تو بات کرو
شکیب جلالی

وہ آئیں نہ آئیں مگر اُمید نہ ہارو

یہ رات تمھاری ہے چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں مگر اُمید نہ ہارو
شاید کسی منزل سے کوئی قافلہ آئے
آشفتہ سرو صبح تلک یونہی پکارو
دن بھر تو چلے اب ذرا دم لے کے چلیں گے
اے ہمسفرو آج یہیں رات گزارو
یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو ہی رہے گا
منزل نہ سہی سر کسی دیوار سے مارو
اوجھل ہوے جاتے ہیں نگاہوں سے دو عالم
تم آج کہاں ہو غمِ فرقت کے سہارو
کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے، لاکھ پکارو!
ناصر کاظمی

لفظ برچھی ہے اَگر تاک کے مارو یارو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 110
قرض دَم توڑتے جذبوں کا اُتارو یارو
لفظ برچھی ہے اَگر تاک کے مارو یارو
دُور ہی دُور سے آواز نہ دے کر رہ جاؤ
بڑھتے ہاتھوں سے بھی یاروں کو پکارو، یارو
اُس ستارے سے اُدھر بھی بہت آبادی ہے
اَپنے باہر بھی ذرا وقت گزارو، یارو
سروِ قامت نہ سہی، سنگِ ملامت ہی سہی
سر ملا ہے تو کسی چیز پہ وارو، یارو
لوگ اِتنے ہی وفادار ہیں جتنے تم ہو
تم نہ جیتو کبھی یہ کھیل، نہ ہارو یارو
عرفان صدیقی