ٹیگ کے محفوظات: لگو

دِیوانہ ہے دِیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دِیوانہ ہے دِیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا
رُوکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے
کیا جانے کیا رُت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے
کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہوکس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
ناصر کاظمی

اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں

دیوان دوم غزل 880
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں
ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو
جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
معذور ہوں جو پائوں مرا بے طرح پڑے
تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں
بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرجی
جوں شیشہ میرے منھ نہ لگو میں نشے میں ہوں
میر تقی میر