ٹیگ کے محفوظات: لگائیں

بات دل کی نہ منہ پہ لائیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
کلبلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات دل کی نہ منہ پہ لائیں ہم
ہے بھنور بھی گریز پا ہم سے
کس کی آنکھوں میں اب سمائیں ہم
ہے تقاضا کہ بات کرنے کو
چھلنیاں حلق میں لگائیں ہم
مہر سے ضو طلب کرے ماجد!
دل ہے وحشی اِسے سدھائیں ہم
ماجد صدیقی

خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں

دیوان سوم غزل 1209
نچیں جبہے عاشق اگر دست پائیں
خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں
جھمکنے لگا خوں تو جاے سرشک
ابھی دیکھیں آنکھیں ہمیں کیا دکھائیں
رہیں کس کو سانسے کہ اب ضعف سے
مرا جی ہی کرنے لگا سائیں سائیں
خدا ساز تھا آزر بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
چلا یار کی اور جاتا ہے جی
جو ہو اختیاری تو اودھر نہ جائیں
جگر سوز ہیں اس کے لعل خموش
طلب کریے بوسہ تو باتیں بنائیں
ہمیں بے نیازی نے بٹھلا دیا
کہاں اتنی طاقت کہ منت اٹھائیں
کہیں دیکھے وہ بید مجنوں کہ ہم
فراموش کار اپنے کو تا دکھائیں
کہیں میر عشق مجازی ہے بد
حقیقت ہو معلوم گر دل لگائیں
میر تقی میر

یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 18
تیرے جور و ستم اُٹھائیں ہم
یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم
جی میں ہے اب وہاں نہ جائیں ہم
دل کی طاقت بھی آزمائیں ہم
نالے کرتے نہیں یہ الفت میں
باندھتے ہیں تری ہوائیں ہم
اب لب یار کیا ترے ہوتے
لب ساغر کو منہ لگائیں ہم
دل میں تم، دل ہے سینہ سے خود گم
کوئی پوچھے تو کیا بتائیں ہم
آب شمشیر یار اگر مل جائے
اپنے دل کی لگی بجھائیں ہم
اب جو منہ موڑیں بندگی سے تری
اے بت اپنے خدا سے پائیں ہم
زندگی میں ہے موت کا کھٹکا
قصر کیا مقبرہ بنائیں ہم
توبۂ مے سے کیا پشیماں ہیں
زاہد و دیکھ کر گھٹائیں ہم
دل میں ہے مثل ہیزم و آتش
جو گھٹائے اُسے بڑھائیں ہم
زار سے زار ہیں جہاں میں امیر
دل ہی بیٹھے جو لطف اٹھائیں ہم
امیر مینائی