ٹیگ کے محفوظات: لکیروں

ٹھنڈی رات جزیروں کی

جنت ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی
کڑوے خواب غریبوں کے
میٹھی نیند امیروں کی
رات گئے تیری یادیں
جیسے بارش تیروں کی
مجھ سے باتیں کرتی ہے
خاموشی تصویروں کی
ان وِیرانوں میں ناصر
کان دبی ہے ہیروں کی
ناصر کاظمی

سارے یقیں پانی پہ لکیروں جیسے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
ریت پہ طوفاں کی تحریروں جیسے ہیں
سارے یقیں پانی پہ لکیروں جیسے ہیں
اِک اِک شخص حنوط ہُوا ہے حیرت سے
جتنے چہرے ہیں ، تصویروں جیسے ہیں
از خود ہی پٹر جائیں نام ہمارے یہ
درد کے سب خّطے ، جاگیروں جیسے ہیں
پاس ہمارے جو بھی جتن ہیں بچاؤ کے
ڈوبنے والوں کی تدبیروں جیسے ہیں
پسپائی کی رُت میں ہونٹ کمانوں پر
ماجد جتنے بول ہیں ، تیروں جیسے ہیں
ماجد صدیقی