ٹیگ کے محفوظات: لپیٹ

زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

جاتی ہے دھوپ اُجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں ، نقش نہیں یہ سلیٹ کے
دنیا کو کچھ خبر نہیں ، کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ، گُلوں میں لپیٹ کے
فوّارے کی طرح نہ اُگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے
اک نُقرئی کھنک کے سِوا کیا ملا، شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
شکیب جلالی

یہ انتظار کدہ ہے، یہ گیٹ پر لکھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 104
کب اپنا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا
یہ انتظار کدہ ہے، یہ گیٹ پر لکھا
پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں
مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا
وہ انتظار تھا بگلے کی بند آنکھوں میں
میں دستیاب ہوں مچھلی نے پیٹ پر لکھا
لکھا ہوا نے ’’یہ بس میری آخری حد ہے
"اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر” لکھا
جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں
ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا
جنابِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت
سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا
ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور
یہی فلک نے کری کی پلیٹ پر لکھا
منصور آفاق