ٹیگ کے محفوظات: لشکارا

کالی رات دیا دے کوئی، جنگل کوئی تارا دے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 262
روشنیوں کے مالک اب ہم کو رستے کا اشارا دے
کالی رات دیا دے کوئی، جنگل کوئی تارا دے
جانے کب سے جلنے والے، ڈوبنے والے، سوچتے ہیں
شاید کوئی آگ میں کیاری، پانی میں گلیارا دے
سوکھے ہوئے دریا کے کنارے، پیڑ کھڑے ہیں دِھیر دَھرے
بادل چادر سایہ کرے، یا لہر کوئی چمکارا دے
اُجلی لڑکی دُنیا میں بڑی کالک ہے، پر ایسا ہو
مانگ میں تیری جگنو چمکیں‘ لونگ تری لشکارا دے
رُکنا ہو یا چلنا ہو، کوئی فکر نہیں بنجارے کو
بنجارن نئے چھپر چھائے، کوچ میں پوت سہارا دے
عرفان صدیقی

لشکارا

بالکونی سے شادی کسی سائے نے

جھُک کے دیکھا مجھے

کون ہے؟ کون ہے؟

اور پھر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی آہٹوں کی دبی سنسنی

ایک وقفہ

اندھیرے کے سنسان سینے کے اندر دھڑکتاہوا

بے صدا شور ٹھہری ہوئی سانس کا

در کی درزیں سفیدی کی دو مختصر سی لکیروں سے روشن ہوئیں

اور میں دل کی دہلیز پر

اپنی بھیگی ہوئی مٹّیوں، خشک ہونٹوں کو بھینچے ہوئے

در کے کھلنے کی آواز کا منظر

واپسی کی گزرگاہ پر

دُور ہوتی ہوئی چاپ سُنتا رہا

آفتاب اقبال شمیم