ٹیگ کے محفوظات: لاتی

تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات

دیوان چہارم غزل 1361
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات
تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات
سخت ہیں کیا ایام جدائی دشواری سے کٹتے ہیں
دن دیواروں سے سرماروں ہوں پتھر ہے چھاتی ہے رات
جوں توں ہجر کے غم میں اس کے شام و سحر ہم کرتے ہیں
ورنہ کسے دن خوش آتا ہے کس کے تئیں بھاتی ہے رات
رات کو جس میں چین سے سوویں سو تو اس کی جدائی میں
شمع نمط جلتے رہتے ہیں اور ہمیں کھاتی ہے رات
روز و شب کی اپنی معیشت نقل کریں کیا تم سے میر
دن کو قیامت جی پہ رہے ہے سر پہ بلا لاتی ہے رات
میر تقی میر

خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں

دیوان سوم غزل 1198
جوش غم اٹھنے سے اک آندھی چلی آتی ہے میاں
خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں
پڑ گئے سوراخ دل کے غم میں سینے کوٹتے
سل تو پتھر کی نہیں آخر مری چھاتی ہے میاں
میں حیا والا ہوا رسواے عالم عشق میں
آنکھ میری اس سبب لوگوں سے شرماتی ہے میاں
رشک اس کے چہرئہ پرنور کا ہے جاں گداز
شمع مجلس میں کھڑی اپنے تئیں کھاتی ہے میاں
آگ غیرت سے قفس کو دوں ہوں چاروں اور سے
ایک دو گلبرگ جب بادسحر لاتی ہے میاں
ہے حزیں نالیدن اس کا نغمۂ طنبور سا
خوش نوا مرغ گلستاں رند باغاتی ہے میاں
کیا کہوں منھ تک جگر آتا ہے جب رکتا ہے دل
جان میری تن میں کیسی کیسی گھبراتی ہے میاں
اس کے ابروے کشیدہ خم ہی رہتے ہیں سدا
یہ کجی اس تیغ کی تو جوہر ذاتی ہے میاں
گات اس اوباش کی لیں کیونکے بر میں میر ہم
ایک جھرمٹ شال کا اک شال کی گاتی ہے میاں
میر تقی میر

یہی ریل گاڑی بہت دِن کے بچھڑے ہوؤں کو ملاتی بھی ہے چپ رہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 124
سنو، اِتنی اَفسردہ کیوں ہو، اگر آج ہم کو چھڑاتی بھی ہے چپ رہو
یہی ریل گاڑی بہت دِن کے بچھڑے ہوؤں کو ملاتی بھی ہے چپ رہو
سبھی واقعات اور کردار اِس طرح کی داستانوں میں فرضی سہی
مگر عام سی اِس کہانی میں شاید کوئی بات ذاتی بھی ہے چپ رہو
بچھڑتے ہوئے موسموں کی قطاروں کو آواز دینے سے کیا فائدہ
کہ آتی ہوئی رُت، پرندے بہت اپنے ہمراہ لاتی بھی ہے چپ رہو
کسی شام کو پھر سنیں گے یہی منتظر کان، مانوُس قدموں کی چاپ
سڑک صرف بستی سے باہر ہی جاتی نہیں گھر تک آتی بھی ہے چپ رہو
خفا ہو کے تم سے جدا ہونے والے، اَچانک کہیں پھر ملیں گے کبھی
بہت کچھ یہاں اِختیاری سہی کچھ مگر حادثاتی بھی ہے چپ رہو
عرفان صدیقی