ٹیگ کے محفوظات: قیامتیں

رَہِ سُلوک و صَفا میں وضاحتیں کیسی

کِتابِ عِشق میں شکووں کی آیتیں کیسی
رَہِ سُلوک و صَفا میں وضاحتیں کیسی
نہ کارواں ہے نہ منزل نہ راہ و راہنما
تَو مشکلاتِ سفر کی حکایتیں کیسی
اِنہیں اُجالوں سے روزِ اَزَل سے بَیر رَہا
یہ ظُلمَتوں کی یکایک عنایتیں کیسی
تُمہاری بزم کے آداب میں نہ ہَوں شامل
"یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی”
نہ توڑے کوئی جنون و خِرَد کے پیمانے
گذشتہ عہد نے دی ہیں ہدایتیں کیسی
کِیا نہ دعویِٰ بینائی کور چشموں میں
نبھائیں ہم نے بھی ضامنؔ روایتیں کیسی
ضامن جعفری

فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 91
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
یہ قرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں
شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی
کوئی خدا ہو کے پتھر جسے بھی ہم چاہیں
تمام عمر اسی کی عبادتیں کرنی
سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے
کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی
ہم اپنے دل سے ہیں مجبور اور لوگوں کو
ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی
ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی
یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں
ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی
کبھی فراز نئے موسموں میں رو دینا
کبھی تلاش پرانی رقابتیں کرنی
احمد فراز