ٹیگ کے محفوظات: قطرہ

اب تا بہ کےَ خرَد کا تماشہ دِکھائی دے

اے جذب! اے جنوں! کوئی جلوہ دِکھائی دے
اب تا بہ کےَ خرَد کا تماشہ دِکھائی دے
ہر شخص ہے تصوّرِ منزل لیے ہُوئے
منزل تو جب مِلے کوئی رستہ دِکھائی دے
مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہُوں سرِ ریگزارِ دشت
شاید غبار میں کوئی چہرہ دِکھائی دے
پردہ تو امتحانِ نظر کا ہے ایک نام
بینا ہے وہ جسے پسِ پردہ دِکھائی دے
عہدِ شباب جانے کب آ کر نکل گیا
ہم منتظر رہے کہ وہ لمحہ دِکھائی دے
ضامنؔ سرشکِ غم میں ہے ماضی کی آب و تاب
یادیں مجھے، زمانے کو قطرہ دِکھائی دے
ضامن جعفری

درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 118
موج ہاتھ آئے تو دریا مانگیں
درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں
کیا ملا انجمن آرائی سے
کیسے تنہائی سے رستہ مانگیں
دست کوتاہ نہیں دست طلب
مانگنے والوں سے ہم کیا مانگیں
دل کو غم ہائے جہاں سے فرصت
تجھ سے کیا تیری تمنا مانگیں
کس قدر تاب نظر ہے کس کو
کس لئے دیدہ بینا مانگیں
شہر کا شہر کڑی دھوپ میں ہے
کس کی دیوار سے سایہ مانگیں
کبھی قطرے کو بحسرت دیکھیں
کبھی دریا سے نہ قطرہ مانگیں
کبھی اک ذرے میں گم ہو جائیں
کبھی ہم وسعت صحرا مانگیں
تاب نظارا نہیں ہے باقیؔ
پھر بھی ہم طرفہ تماشا مانگیں
باقی صدیقی