ٹیگ کے محفوظات: فیکوں

بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟

تیرے لہجے میں ترا جہلِ دروں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟
پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح
جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے
سننے والوں پہ مرا حال عیاں ہو کیسے
عشق ہوتا ہے تو وحشت میں سکوں بولتا ہے
تیرا اندازِ تخاطب، ترا لہجہ، ترے لفظ
وہ جسے خوفِ خدا ہوتا ہے، یوں بولتا ہے؟
عقل اس باب میں خاموش ہی رہتی ہے جناب
جب ہو موضوع حقیقت تو جنوں بولتا ہے
گفتگو کیا ہو کہ جب گویا ہوں آنکھیں تیری
چپ سی لگ جاتی ہے جب ان کا فسوں بولتا ہے
کوئی عرفان کو سمجھائے، یہ آشفتہ مزاج
جاں کا خطرہ ہو تو پہلے سے فزوں بولتا ہے
عرفان ستار

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ زبوں ہے میرا
کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا
میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو
ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا
یہ جو ٹھہراوٗ بظاہر ہے اذیّت ہے مری
جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا
یہ جو صحراوٗں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری
اور دریاوٗں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا
وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا
بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا
رازِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان
یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا
عرفان ستار

ہَر بَندِ قَفَس کو توڑا ہے ہَر دامِ فسوں سے گُذرے ہیں

ہر مقتل سے ہو آئے ہیں ہَر موجَہِ خُوں سے گُذرے ہیں
ہَر بَندِ قَفَس کو توڑا ہے ہَر دامِ فسوں سے گُذرے ہیں
اَندیشَہِ فَردا کے ماروں کی صَف میں ہَم کَب شامِل تھے
اے اہلِ خِرَد کُچھ پاسِ اَدَب ہَم لوگ جنوں سے گذرے ہیں
کِس چیز کا غَرّہ ہے اِن کو؟ کِس بات پَر اِتنے نازاں ہیں؟
یہ واعِظ و ناصِح کون سے دَردِ روز اَفزُوں سے گُذرے ہیں
یہ روز بَدَلتے مَوسِم جَب چاہیں جا کَر دَریافت کریں
طُوفانِ حَوادِث حَیراں تھے ہَم اِتنے سکوں سے گُذرے ہیں
کیا جان کی بازی لگنی ہے؟ گر یہ ہے تَو چَلیے یہ ہی سَہی!
ہَم لوگ تَواِس کے عادی ہیں ہَم خاک اُور خُوں سے گُذرے ہیں
بینائی بَغیَرِ دانائی اِلزام ہے اَندھی آنکھوں پَر
کیا اہلِ دَوَل دیکھیں گے ہَم کِس کَربِ دَروں سے گُذرے ہیں
کُچھ کارِ جنوں تھا بے پایاں کُچھ تَنگیِ دامَنِ وَقت بھی تھی
کُچھ ہَم بھی عُجلَت میں ضامنؔ بے "کُن”، "فَیَکُوں” سے گُذرے ہیں
ضامن جعفری

اَب کَہاں مُعجَزَہِ کُن فَیَکُوں ہوتا ہے

نہ کوئی سِحرِ نَظَر ہے نہ جُنوں ہوتا ہے
اَب کَہاں مُعجَزَہِ کُن فَیَکُوں ہوتا ہے
جِتنی وحشَت ہو سِوا اُتنا سُکوں ہوتا ہے
رَہرَوِ راہِ جُنوں کہتا ہے یُوں ہوتا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ ہوتا ہے محبت میں جُنوں
ہَم یہ کہتے ہیں کہ ہوتا ہے تَو کیوں ہوتا ہے
مَنزِلِ جَذب و جُنُوں اِتنی بھی آسان نہیں
یہ سَمَجھ لیَں کہ تَمَنّاؤں کا خُوں ہوتا ہے
کُل سے مِلنے کے لیے راہِ فَنا میں ضامنؔ
عِشق آغاز ہے پھِر جَذب و جُنُوں ہوتا ہے
ضامن جعفری

عِشق بے نِسبَتِ "کُن” خُود "فَیَکُوں ” ہے یُوں ہے

اِس کی تَوجیہہ عَبَث ہے کہ یہ یُوں ہے یُوں ہے
عِشق بے نِسبَتِ "کُن” خُود "فَیَکُوں ” ہے یُوں ہے
اَپنی پہچان پَہ مائِل ہے بہت رُوحِ حیات
ہَر طَرَف شورِ اَنالحق جو فزوں ہے یُوں ہے
زُعمِ دانائی کو اِدراکِ حَقیقَت تھا مُحال
یہ مِرا صَدقَہِ اَندازِ جُنوں ہے یُوں ہے
تُم نے دیکھی ہی نہیں ہے تَپِشِ دَشتِ خَیال
ذِہن کی آبلہ پائی جو فُزوں ہے یُوں ہے
بحرِ مَوّاجِ بَشَر اَپنی حَقیِقَت کو نَہ بُھول
سَرحَدِ عِجز پَہ تُو قَطرَہِ خُوں ہے یُوں ہے
اَز اَزَل تا بَہ اَبَد خالِق و مَخلُوق کا کھیل
ہَم یہی سُنتے چَلے آئے ہیں کیوں ہے یُوں ہے
عَدل و اِنصاف کی تعریف مُکَمَّل کَر دُوں
حُکم اُس کا ہے مِرا صَبر و سُکوں ہے یُوں ہے
میں وہی ہُوں کہ جو تھا، تُجھ کو لگا ہُوں بہتَر
صَیقَلِ آئینَہِ ظَرف فُزوں ہے یُوں ہے
حُسن آمادَہِ اِظہارِ نَدامَت ہے ضَرور
عشق کے سامنے یہ سر جو نِگوں ہے یُوں ہے
مُشتِ خاک اَور یہ ہَنگامَہِ ہَستی ضامنؔ!
قید میں رُوح کا اِک رَقصِ جُنوں ہے یُوں ہے
ضامن جعفری

کیا اہلِ خِرد کیفِ جنوں ڈھونڈ رہے ہیں

اِس عالمِ وحشت میں سکوں ڈھونڈ رہے ہیں
کیا اہلِ خِرد کیفِ جنوں ڈھونڈ رہے ہیں
قاتل بھی ہے خنجر بھی ہے موجود مگر لوگ
مقتول کے ہاتھوں ہی پہ خوں ڈھونڈ رہے ہیں
اے ظرفِ تنک مایَہِ دنیائے دَنی، ہم
ظرف اب کوئی وسعت میں فزوں ڈھونڈ رہے ہیں
پس منظرِ "کُن” کیا تھا ہمیں بھی تو ہو معلوم
ہم لمحہِ قبل از "فَیَکُوں” ڈھونڈ رہے ہیں
معلوم نہیں حلقہِ احباب میں ضامنؔ
وہ چیز جو ناپید ہے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں
ضامن جعفری

یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 147
عشق بس ایک کرشمہ ہے، فسوں ہے، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے، یوں ہے
اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے
تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے، یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے، یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے، یوں ہے
احمد فراز

بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 76
تیرے لہجے میں ترا جہلِ دروں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟
پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح
جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے
سننے والوں پہ مرا حال عیاں ہو کیسے
عشق ہوتا ہے تو وحشت میں سکوں بولتا ہے
تیرا اندازِ تخاطب، ترا لہجہ، ترے لفظ
وہ جسے خوفِ خدا ہوتا ہے، یوں بولتا ہے؟
عقل اس باب میں خاموش ہی رہتی ہے جناب
جب ہو موضوع حقیقت تو جنوں بولتا ہے
گفتگو کیا ہو کہ جب گویا ہوں آنکھیں تیری
چپ سی لگ جاتی ہے جب ان کا فسوں بولتا ہے
کوئی عرفان کو سمجھائے، یہ آشفتہ مزاج
جاں کا خطرہ ہو تو پہلے سے فزوں بولتا ہے
عرفان ستار

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 4
سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ زبوں ہے میرا
کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا
میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو
ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا
یہ جو ٹھہراوٗ بظاہر ہے اذیّت ہے مری
جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا
یہ جو صحراوٗں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری
اور دریاوٗں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا
وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا
بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا
رازِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان
یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا
عرفان ستار