ٹیگ کے محفوظات: فانوس

رشتۂٴ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 97
شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
رشتۂٴ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا
مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یا رب! ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا
حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لبِ افسوس تھا
کیا کروں بیمارئِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

دور تک ہے عزت و ناموس کی قربان گاہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 414
ہے محیطِ جاں شبِ محبوس کی قربان گاہ
دور تک ہے عزت و ناموس کی قربان گاہ
بہہ رہا ہے مقتلِ احساس سے تازہ لہو
زندگی ہے عالم محسوس کی قربان گاہ
آ مجھے دے زخم پھر سے ، آ چلا تیغِ ادا
سرخ کر میرے دلِ مایوس کی قربان گاہ
پاؤں پر مہندی لگاسکتی ہے خوں کی ہم نفس
کرچیاں ہوتے ہوئے فانوس کی قربان گاہ
چل رہے ہیں الٹے پاؤں راستوں پرسارے لوگ
یہ نگر ہے منزل معکوس کی قربان گاہ
خوبصورت لوگ بھی اور خوبصورت پھول بھی
خوشبوئوں کے دلربا ملبوس کی قربان گاہ
سعد پل آیا نہیں کوئی کہیں بھی راہ میں
ہر گھڑی ہے ساعتِ منحوس کی قربان گاہ
وہ لگا دی شیخ نے سیدھی جہنم میں چھلانگ
حسن بھی تھامحشرِ مخصوص کی قربان گاہ
پھر انا الحق کی صدائے دلربا تجسیم کر
ڈھونڈھ پھرمنصور دشتِ سوس کی قربان گاہ
منصور آفاق

میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 169
خالی پیٹ چلے مایوس سڑک پر
میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر
دیکھ کے پہلی بار دہکتا سورج
اس نے پھینک دیا ملبوس سڑک پر
برسوں پہلے میرا گھر ہوتا تھا
شہرِ فسوں کی اس مانوس سڑک پر
صرف یہ رستہ جانے والوں کا ہے
پہلی بار ہوا محسوس سڑک پر
میں نے آگ بھری بوتل کھولی تھی
اس نے پیا تھا اورنج جوس سڑک پر
چاند دکھائی دیتا تھا کھڑکی سے
دور لٹکتا اک فانوس سڑک پر
ننگے پاؤں چلتے ہیں ہم منصور
آگ اگلتی اک منحوس سڑک پر
منصور آفاق