ٹیگ کے محفوظات: غلامی

غم بہ اندازِ شادکامی ہے

قہقہہ آنسوؤں کا حامی ہے
غم بہ اندازِ شادکامی ہے
راہ دشوار ہے نہ منزل دور
جذبہِ رَہ روی میں خامی ہے
وقت کی قید، خواہشوں کے جال
زیست کچھ بھی سہی، غلامی ہے
حُسنِ احساس حُسن کا ہے طِلسم
عشق نظروں کی شادکامی ہے
آپ میں گر وفا نہیں تو کیا
چاند میں بھی تو ایک خامی ہے
ہر گھڑی کچھ نزاکتوں کا خیال
یہ محبت بھی اک غلامی ہے
اب شکیبؔ! آنسوؤں کو پی جاؤ
غم کی معراج شادکامی ہے
شکیب جلالی

یہ مدینے میں اپنی سلامی سے ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 638
زندگی شہرِ دل کی خرامی سے ہے
یہ مدینے میں اپنی سلامی سے ہے
اُس سراپا عنایت پہ بھیجیں دورد
اپنی آزادی جس کی غلامی سے ہے
یہ مناظر کی میٹھی حسیں دلکشی
ایک پاکیزہ اسم گرامی سے ہے
کائناتِ شبِ تیرہ و تار میں
روشنی اُس کی قرآں کلامی سے ہے
جس کے ہونے سے ظاہر خدا ہو گیا
اپنا ہونا تواُس نامِ نامی سے ہے
جوبھی اچھاہے اس کی عطاسے لکھا
جو لکھا ہے غلط میری خامی سے ہے
ان سے منصور پہلو تہی جن کا بھی
ربط ابلیس جیسے حرامی سے ہے
منصور آفاق