ٹیگ کے محفوظات: علاج

صبا بھی پُوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا

ہُوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پُوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
کہو تو زخمِ رگِ گُل کا تذکرہ چھیڑیں
کہ زیرِ بحث ہے کردار آج کانٹوں کا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفُو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج، کانٹوں کا
چمن سے اُٹھ گئی رسمِ بہار ہی شاید
کہ دل پہ بار نہیں ہے، رواج کانٹوں کا
درِ قفس پہ، اُسی کے گلے کا ہار تھے پُھول
جسے مِلا ہے گلستاں سے تاج کانٹوں کا
لگی ہے مُہر خراشوں کی دیدہ و دل پر
شکیبؔ! کوئی کرے کیا عِلاج کانٹوں کا
شکیب جلالی

اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 12
لو ہم مریضِ عشق کے بیماردار ہیں
اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!!
مرزا اسد اللہ خان غالب

ایک مدت سے وہ مزاج نہیں

دیوان اول غزل 285
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
ایک مدت سے وہ مزاج نہیں
درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے
اب دوا کی کچھ احتیاج نہیں
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرض عشق کا علاج نہیں
شہر خوبی کو خوب دیکھا میر
جنس دل کا کہیں رواج نہیں
میر تقی میر