ٹیگ کے محفوظات: عقابوں

کہ انتخابِ سخن ہے یہ اِنتخابوں میں

رقم کریں گے ترا نام اِنتسابوں میں
کہ انتخابِ سخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مری بھری ہوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مقید ہیں ان حبابوں میں
ہر آن دل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گھرا ہے ایک کبوتر کئی عقابوں میں
ذرا سنو تو سہی کان دھر کے نالہِ دل
یہ داستاں نہ ملے گئی تمھیں کتابوں میں
نئی بہار دِکھاتے ہیں داغِ دل ہر روز
یہی تو وصف ہے اس باغ کے گلابوں میں
پون چلی تو گل و برگ دف بجانے لگے
اُداس خوشبوئیں لو دے اُٹھیں نقابوں میں
ہوا چلی تو کھلے بادبانِ طبعِ رسا
سفینے چلنے لگے یاد کے سرابوں میں
کچھ اِس ادا سے اُڑا جا رہا ہے ابلقِ رنگ
صبا کے پاؤں ٹھہرتے نہیں رکابوں میں
بدلتا وقت یہ کہتا ہے ہر گھڑی ناصر
کہ یادگار ہے یہ وقت اِنقلابوں میں
ناصر کاظمی

ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 125
ہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
اب نۓ سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے
اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے
زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آۓ ہی نہیں اب کے گلابوں والے
احمد فراز