آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 34
سوچئے گر آدمی ہی درمیاں کوئی نہ ہو
یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو
خود کلامی نے غموں کا بوجھ ہلکا کر دیا
اب مرا، میری بلا سے راز داں کوئی نہ ہو
آج بھی مجھ کو مری گمنامیاں اچھی لگیں
کل بھی چاہوں گا مرا نام و نشاں کوئی نہ ہو
سختی ء حالات نے اندر سے پتھر کر دیا
شہر بھر میں ، ورنہ کیوں شوروفغاں کوئی نہ ہو
تنگ ہیں مجھ پر زمین و آسماں کی وُسعتیں
مجھ سا آوارہ بھی اے اہلِ جہاں کوئی نہ ہو
آفتاب اقبال شمیم