ٹیگ کے محفوظات: شعلوں

اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 252
رنگ تھے کچھ نیل پالش کے مری آنکھوں کے بیچ
اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ
راکھ کے گرنے کی بھی آواز آتی تھی مجھے
مر رہا تھا آخری سگریٹ مرے ہونٹوں کے بیچ
ہاتھ میں تو لالہ و گل تھے مرے حالات کے
پشت پر کاڑھی ہوئی تھی کھوپڑی سانپوں کے بیچ
کون گزرا ہے نگارِ چشم سے کچھ تو کہو
پھر گئی ہے کون سی شے یاد کی گلیوں کے بیچ
دو ملاقاتوں کے دن تھے آدمی کے پاس بس
اور کُن کا فاصلہ تھا دونوں تاریخوں کے بیچ
گوشت کے جلنے کی بو تھی قریۂ منصور میں
کھال اتری تھی ہرن کی، جسم تھا شعلوں کے بیچ
منصور آفاق

اک ذہن تھا جو توپ کے گولوں سے بھرا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 83
اک دل تھا مرا ، پیار کے بولوں سے بھرا تھا
اک ذہن تھا جو توپ کے گولوں سے بھرا تھا
کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر
اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا
اک یاد تھی گزرے ہوئے معصوم دنوں کی
کمرہ کوئی گڑیا کے پٹولوں سے بھرا تھا
چھت ہی نہیں ٹوٹی تھی کسی کچے مکاں کی
چاول کا کوئی کھیت بھی اولوں سے بھرا تھا
بازوں کے تسلط میں فضائیں تھیں چمن کی
محفوظ تھا پنجرہ سو ممولوں سے بھرا تھا
منصور کی چیخیں تھیں کہ سینے میں دبی تھیں
کمرہ تھا کہ بجتے ہوئے ڈھولوں سے بھرا تھا
منصور آفاق