ٹیگ کے محفوظات: شرمندہ

اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 13
میرا، میری ذات میں سودا ہوا
اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا
کیا سناؤں سرگزشتِ زندگی؟
اِک سرائے میں تھا، میں ٹھیرا ہوا
پاس تھا رِشتوں کا جس بستی میں عام
میں اس بستی میں بے رشتہ ہوا
اِک گلی سے جب سے رُوٹھن ہے مری
میں ہوں سارے شہر سے رُوٹھا ہوا
پنج شنبہ اور دُکانِ مے فروش
کیا بتاؤں کیسا ہنگامہ ہوا
جون ایلیا

کسی گزرے ہوئے موسم کے نمائندہ ہم

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 105
یاد آتی ہوئی خوشبو کی طرح زندہ ہم
کسی گزرے ہوئے موسم کے نمائندہ ہم
اڑ گئے آنکھ سے سب لمحۂ موجود کے رنگ
رہ گئے نقش گرِ رفتہ و آئندہ ہم
حرفِ ناگفتہ کا خواہاں کوئی ملتا ہی نہیں
اور اسی گوہرِ ارزاں کے فروشندہ ہم
ایسے آشوب میں دکھ دینے کی فرصت کس کو
ہیں بہت لذتِ آزار سے شرمندہ ہم
اس اندھیرے میں کہ پل بھر کا چمکنا بھی محال
رات بھر زندہ و رخشندہ و تابندہ ہم
اپنا اس حرف و حکایت میں ہنر کچھ بھی نہیں
بولنے والا کوئی اور نگارندہ ہم
عرفان صدیقی