ٹیگ کے محفوظات: شرماتی

خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں

دیوان سوم غزل 1198
جوش غم اٹھنے سے اک آندھی چلی آتی ہے میاں
خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں
پڑ گئے سوراخ دل کے غم میں سینے کوٹتے
سل تو پتھر کی نہیں آخر مری چھاتی ہے میاں
میں حیا والا ہوا رسواے عالم عشق میں
آنکھ میری اس سبب لوگوں سے شرماتی ہے میاں
رشک اس کے چہرئہ پرنور کا ہے جاں گداز
شمع مجلس میں کھڑی اپنے تئیں کھاتی ہے میاں
آگ غیرت سے قفس کو دوں ہوں چاروں اور سے
ایک دو گلبرگ جب بادسحر لاتی ہے میاں
ہے حزیں نالیدن اس کا نغمۂ طنبور سا
خوش نوا مرغ گلستاں رند باغاتی ہے میاں
کیا کہوں منھ تک جگر آتا ہے جب رکتا ہے دل
جان میری تن میں کیسی کیسی گھبراتی ہے میاں
اس کے ابروے کشیدہ خم ہی رہتے ہیں سدا
یہ کجی اس تیغ کی تو جوہر ذاتی ہے میاں
گات اس اوباش کی لیں کیونکے بر میں میر ہم
ایک جھرمٹ شال کا اک شال کی گاتی ہے میاں
میر تقی میر

یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع

دیوان دوم غزل 832
اس کے ہوتے بزم میں فانوس میں آتی ہے شمع
یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع
ہر زماں جاتی ہے گھٹتی سامنے تیرے کھڑی
جوش غم سے آپ ہی اپنے تئیں کھاتی ہے شمع
بیٹھے اس مہ کے کسو کو دیکھتا ہے کب کوئی
رنگ رو کو بزم میں ہر چند جھمکاتی ہے شمع
باد سے جنبش میں کچھ رہتی نہیں ہے متصل
اس بھبھوکے سے جو گھٹتی ہے سو جھنجھلاتی ہے شمع
چھوڑتی ہے لطف کیا افسردگی خاطر کی میر
آگے اس کے چہرئہ روشن کے بجھ جاتی ہے شمع
میر تقی میر