ٹیگ کے محفوظات: شرط
شرط
ترا کہنا ہے
’’مجھ کو خالقِ کون و مکاں نے
کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں
مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو
مری باتوں میں اُجلے موسموں کی گُل فشاں خوشبو
مرے لہجے کی نرمی موجۂ گل نے تراشی ہے
مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے
مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پُھولوں کی رنگت
مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت
مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے
مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بُھول جاتی ہیں
میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں
تو ساحل کی ہوائیں
اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر
سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں
مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے
میں حرفوں کو نیا چہرہ
تو چہروں کو حروفِ نوکا رشتہ نذر کرتی ہوں
زباں تخلیق کرتی ہوں ۔‘‘
ترا کہنا مجھے تسلیم ہے
میں مانتی ہوں
اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے
خدائے برگ و گل کے سامنے
میں بھی دُعا میں ہوں ،سراپا شکر ہوں
اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن
تجھے دے دے تو میں جانوں
شرط
تجھ کو ڈر ہے کہ ناموس گہِ عالم میں
عشق کے ہاتھوں نہ ہو جائے تو بدنام کہیں
آج تک مجھ سے جو شرما کے بھی تو کہہ نہ سکی
وہ ترا راز زمانے میں نہ ہوعام کہیں!
کسی شب ایسا نہ ہو نالۂ بیتاب کے ساتھ
تیرے ہونٹوں سے نکل جائے مرا نام کہیں
روزنِ در سے لگی، منتظر، آنکھوں کا حال
جا کے تاروں سے نہ کہہ دے شفقِ شام کہیں
اس کی پاداش میں ساقیِ فلک چھین نہ لے
مرے ہونٹوں سے ترے ہونٹوں کا یہ جام کہیں
یہ تری شرطِ وفا ہے کہ وفا کا قصہ
دیکھ! سن پائے نہ گردش گرِ ایام کہیں
ہاں مری روح پہ مسطور ہے یہ شرط تری
مجھے منظور ہے منظور ہے یہ شرط تری
تو یقیں رکھ کہ ترے عشق میں جیتے جیتے
عدم آباد کی آغوش میں سو جاؤں گا
ایک دن دل سے جب آوازِ شکست آئے گی
اس کے آہنگِ فنا رقص میں کھو جاؤں گا
موت کے دیو کی آنکھوں سے ٹپکتا ہے جو
جذب اس شعلۂ جاں سوز میں ہو جاؤں گا
اور خدا پوچھے گا وہ راز باصرار ترا
اس کے اصرار سے ٹکرائے گا انکار مرا