ٹیگ کے محفوظات: شاہی

اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 24
کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
احمد فراز

پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا

دیوان سوم غزل 1102
کیا ہے عشق جب سے میں نے اس ترک سپاہی کا
پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا
اگر ہم قطعۂ شب سا لیے چہرہ چلے آئے
قیامت شور ہو گا حشر کے دن روسیاہی کا
ہوا ہے عارفان شہر کو عرفان بھی اوندھا
کہ ہر درویش ہے مارا ہوا شوق الٰہی کا
ہمیشہ التفات اس کا کسو کے بخت سے ہو گا
نہیں شرمندہ میں تو اس کے لطف گاہ گاہی کا
برنگ کہربائی شمع اس کا رنگ جھمکے ہے
دماغ سیر اس کو کب ہے میرے رنگ کاہی کا
بڑھیں گے عہد کے درویش اس سے اور کیا یارو
کیا ہے لڑکوں نے دینا انھوں کو تاج شاہی کا
خراب احوال کچھ بکتا پھرے ہے دیر و کعبے میں
سخن کیا معتبر ہے میر سے واہی تباہی کا
میر تقی میر