ٹیگ کے محفوظات: شانوں

یہ فسانہ رہا زبانوں پر

دیوان ششم غزل 1822
دل گئے آفت آئی جانوں پر
یہ فسانہ رہا زبانوں پر
عشق میں ہوش و صبر سنتے تھے
رکھ گئے ہاتھ سو تو کانوں پر
گرچہ انسان ہیں زمینی ولے
ہیں دماغ ان کے آسمانوں پر
شہر کے شوخ سادہ رو لڑکے
ظلم کرتے ہیں کیا جوانوں پر
عرش و دل دونوں کا ہے پایہ بلند
سیر رہتی ہے ان مکانوں پر
جب سے بازار میں ہے تجھ سی متاع
بھیڑ ہی رہتی ہے دکانوں پر
لوگ سر دیتے جاتے ہیں کب سے
یار کے پاؤں کے نشانوں پر
کجی اوباش کی ہے وہ دربند
ڈالے پھرتا ہے بند شانوں پر
کوئی بولا نہ قتل میں میرے
مہر کی تھی مگر دہانوں پر
یاد میں اس کے ساق سیمیں کی
دے دے ماروں ہوں ہاتھ رانوں پر
تھے زمانے میں خرچی جن کی روپے
ٹھانسا کرتے ہیں ان کو آنوں پر
غم و غصہ ہے حصے میں میرے
اب معیشت ہے ان ہی کھانوں پر
قصے دنیا میں میر بہت سنے
نہ رکھو گوش ان فسانوں پر
میر تقی میر

بہت دِنوں میں کھلیں کھڑکیاں مکانوں کی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 223
بدل گئی ہے فضا نیلے آسمانوں کی
بہت دِنوں میں کھلیں کھڑکیاں مکانوں کی
بس ایک بار جو لنگر اُٹھے تو پھر کیا تھا
ہوائیں تاک میں تھیں جیسے بادبانوں کی
کوئی پہاڑ رُکا ہے کبھی زمیں کے بغیر
ہر ایک بوجھ پنہ چاہتا ہے شانوں کی
تو غالباً وہ ہدف ہی حدوں سے باہر تھا
یہ کیسے ٹوٹ گئیں ڈوریاں کمانوں کی
جو ہے وہ کل کے سوالوں کے اِنتظار میں ہے
یہ زندگی ہے کہ ہے رات اِمتحانوں کی
عرفان صدیقی