ٹیگ کے محفوظات: سیاہی

ماحول میں رچ گئی سیاہی

اربابِ سَحر کی خودنگاہی
ماحول میں رچ گئی سیاہی
رخشندہ نجوم دُور شب میں
دیتے رہے صبح کی گواہی
پہنچے سرِ دار ہنستے گاتے
ہم نے رسمِ جُنوں نباہی
اے راہبرو! ذرا تو سوچو
بھٹکیں گے کہاں کہاں یہ راہی
نیچی ہے نظر سِتم گروں کی
ثابت ہے ہماری بے گُناہی
شب خون پڑے گا تیرگی پر
مہتاب بدست ہے سیاہی
شکیب جلالی

رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا

دیوان اول غزل 162
خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا
رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا
سیاہ بخت سے میرے مجھے کفایت تھی
لیا ہے داغ نے دامن عبث سیاہی کا
نگہ تمام تو اس کی خدا نہ دکھلاوے
کرے ہے قتل اثر جس کی کم نگاہی کا
کسو کے حسن کے شعلے کے آگے اڑتا ہے
سلوک میر سنو میرے رنگ کاہی کا
میر تقی میر