منصور آفاق ۔ غزل نمبر 489
قیامت خیز طوفانوں سے لڑ جانے کی جلدی تھی
نجانے کیوں تجھے جڑ سے اکھڑ جانے کی جلدی تھی
ابھی تو ہم ملے ہی تھے ابھی تو گل کھلے ہی تھے
تجھے کیا اس قدر جاناں بچھڑ جانے کی جلدی تھی
نئی رُت سے بہت پہلے فقظ تُو ہی نہیں بدلی
یہاں پر تو درختوں کو بھی جھڑ جانے کی جلدی تھی
مجھے تو ہجر میں رہنے کی عادت تھی مگر جاناں
تجھے بھی ایسا لگتا ہے اجڑ جانے کی جلدی تھی
بجا ہے ہاتھ کو میرے تمنا تیری تھی لیکن
ترے دامن کو بھی شاید ادھڑ جانے کی جلدی تھی
فقط دوچار لمحوں میں سمت آئی ہتھیلی پر
زمیں کے وسعتوں کو بھی سکڑ جانے کی جلدی تھی
ابھی تو اس نے بدلا تھا لباسِ جسم ہی منصور
مری قسمت کو بھی کتنی بگڑ جانے کی جلدی تھی
منصور آفاق