فصیلِ برف سے حصارِ آب تک
زمیں۔۔۔۔
ازل کی کوکھ سے جنی ہوئی
تکون سی بنی ہوئی
نشیب در نشیب،
سو ہزار سال کے رُکے ہوئے سمے کو اوڑھ کر
دراز ہے
گزرتے آسماں نے روز ایک مہرِ بے کفن
کیا ہے دفن اِس کی سرد خاکمیں
مگر یہ کیا کہ ممکنات کے افق پہ وہ
طلوعِ واقعہ ہوا نہیں
جو اس کی چشمِ تنگ بیں کو کھول دے
جو اس کو ضربِ روشنی سے دھن کے اور کات کر
نئے سرے سے پھر بُنے
اور انتظار ہے کہ ایک دن مدارِ وقت پر
طلوعِ بے غروب میں
وہ شاہ مرد آئے گا
جو اس ادھیڑ عمر، ثقل یافتہ، شکن زدہ زمین میں
نئے خیال و فعل کے عمود و قوس ڈال کر
پتنگ کی طرح اِسے
سبک بدن، فراز جُو بنائے گا
بلندیوں کے بام سے
بسنت کی سہاگنوں کے درمیاں کھڑے ہوئے
اِسے ورائے آسماں اڑائے گا
آفتاب اقبال شمیم