سوسن کا سپنا |
THE REVERIE OF POOR SUSAN |
| گلی کی نکڑ سے جھانکتا
صبح نو کا چہرہ اسی جگہ پر چہک رہا ہے قفس میں گاتا ہوا پرندہ بلند آہنگ میٹھی تانوں میں تین برسوں سے مست طائر غریب سوسن کے راستے میں حسین نغمے بچھا رہا ہے مہکتی اور نیم باز صبحوں کی خامشی میں پیام خنداں سنا رہا ہے پر آج سوسن کو کیا ہوا ہے کھلی نگاہوں میں کسمساتا دبیز منظر نویلے سپنے جگا رہا ہے اُدھر کہیں گوشۂ وطن میں بلند ہوتی ہوئی پہاڑی یہ پیڑ ، یہ بے لباس کہرے کی سرسراہٹ یہ وادیوں کے گداز سینوں میں بہتے دریا یہ سبز ٹکڑے اور ان کے قدموں میں ایک تنہا سی زرد کُٹیا کہ آشیاں ننھی فاختہ کا فقط یہی دلنواز کُٹیا اسے جہاں سے عزیز تر ہے وہ گُم ہے اپنے وطن کے جنت نظیر سپنے میں کھو چکی ہے مگر کہیں عکس ڈھل رہے ہیں یہ دھند ، دریا پگھل رہے ہیں پہاڑی کیا سر اُٹھا سکے گی ندی کو بہنے میں عار ہو گا کہ اس کی بے بس کھلی نگاہوں سے رنگ سارے پھسل رہے ہیں … |
At the corner of Wood Street, when daylight appears,
Hangs a Thrush that sings loud, it has sung for three years: Poor Susan has passed by the spot, and has heard In the silence of morning the song of the Bird۔ Tis a note of enchantment; what ails her? She sees A mountain ascending, a vision of trees; Bright volumes of vapour through Lothbury glide, And a river flows on through the vale of Cheapside۔ Green pastures she views in the midst of the dale, Down which she so often has tripped with her pail; And a single small cottage, a nest like a dove’s, The one only dwelling on earth that she loves۔ She looks, and her heart is in heaven: but they fade, The mist and the river, the hill and the shade: The stream will not flow, and the hill will not rise, And the colours have all passed away from her eyes! |
سوسن کا سپنا ۔ THE REVERIE OF POOR SUSAN by William Wordsworth
گلناز کوثر