گرا دو
ساری دیواریں گرا دو میرے سر پر
اور پھر سوچو
کہ کیا کوہوں کی جبریت کسی دریا کارستا
روک سکتی ہے
تمہیں کیوں وہم ہے
کہ کاغذوں کے پھول خوشبوئیں اڑاتے ہیں
تمہارے قمقموں کے سرد پس منظر میں
ظلمت کے سمندر ہیں
ہوا میں تتلیوں کے پر اُڑانے سے
نیا موسم نہیں آتا
زمیں پر ہر طرف چیلوں کے سائے
سنگ باری کر رہے ہیں
کوہ پیکر جبر کے ہاتھوں میں پرچم ہے اُجالے کا
اُجالا جو نہیں ہے
اور جو اپنی نفی پر قہر بن کرٹوٹنے والا ہے
جس کا عکس
کالے درد میں جھلسی ہوئی آنکھوں کی کرنیں ہیں
جنہیں کل فیکٹری کے گیٹ پر
تم نے انڈیلا ہے
آفتاب اقبال شمیم