ٹیگ کے محفوظات: سن

کہاں کہاں نہ مِرے دِل نے داغ چُن کے لیے

تَرَس رہی ہے محبّت صدائے کُن کے لیے
کہاں کہاں نہ مِرے دِل نے داغ چُن کے لیے
یہ بے نیازیِ منزل ہے چشمِ حیراں کی
میں کیا رہینِ سفَر ہُوں سفَر کی دُھن کے لیے
کبھی نہ پُوچھا یہ بادِ صَبا کے جھونکوں نے
کوئی پیام اگر بھیجنا ہو اُن کے لیے
نہ پا سکا کہیِں نَشو و نُما نہالِ خلوص
نہ سازگار فضا پائی بیخ و بُن کے لیے
یہ تجربات و حوادث ہیں زینتِ قرطاس
کہیِں سے پڑھ کے لیے ہیں نہ ہم نے سُن کے لیے
نَظَر جُھکی ہی رہی پیشِ قلب و رُوح سَدا
سکونِ زیست کی خواہش بہت کی اُن کے لیے
سجی ہے انجمنِ زیست غالباً ضامنؔ
دِل و دماغ کی تکرارِ کُن مَکُن کے لیے
ضامن جعفری

کبھی ہماری بات بھی سن

تنہا عیش کے خواب نہ بن
کبھی ہماری بات بھی سن
تھوڑا غم بھی اُٹھا پیارے
پھول چنے ہیں خار بھی چن
سکھ کی نیندیں سونے والے
محرومی کے راگ بھی سن
تنہائی میں تیری یاد
جیسے ایک سریلی دُھن
جیسے چاند کی ٹھنڈی لو
جیسے کرنوں کی کن من
جیسے جل پریوں کا ناچ
جیسے پائل کی جھن جھن
ناصر کاظمی

جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 525
زیادہ بے لباسی کے سخن اچھے نہیں ہوتے
جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے
کئی اجڑے ورق خوشبو پسِ ملبوس رکھتے ہیں
کئی اچھی کتابوں کے بدن اچھے نہیں ہوتے
کبھی ناموں کے پڑتے ہیں غلط اثرات قسمت پر
کبھی لوگوں کی پیدائش کے سن اچھے نہیں ہوتے
غزالوں کے لیے اپنی زمینیں ٹھیک رہتی ہیں
جو گلیوں میں نکل آئیں ہرن اچھے نہیں ہوتے
محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی
کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے
بڑی خوش چہرہ خوشبو سے مراسم ٹھیک ہیں لیکن
گلابوں کے بسا اوقات من اچھے نہیں ہوتے
منصور آفاق

میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 103
اس نے پہلے مارشل لاء میرے آنگن میں رکھا
میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند
جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا
جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی
آنسوئوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا
ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کی یادوں پر نہیں
تھا جہنم خیز موسم غم کے جوبن میں رکھا
سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی
گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا
میں اسے منصور بھیجوں کس لیے چیتر کے پھول
جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا
منصور آفاق