خود کو کس آگ میں پھینکوں کہ چٹخ جائیں تہیں عمروں کی
اور تاریخ مجھے پھر سے جنے
وقت! اے مہلتیں دینے والے
تیری اک آن کی یورش میں بہیں دُنیائیں
دیکھ! کندھے پہ اٹھائے ہوئے خواہش کی صلیب
تیرے رستے میں کھڑا ہوں
آکر
روند دے مجھ کو زمانوں کی گزرگاہوں میں
پھر مجھے میٹھوں میں بھ کے ہواؤں میں بکھیر
وقت آ!
اصل کی شکل دکھا
تاکہ کوہوں کے عقب سے ابھرے
آسماں معنی کا
اور اٹھوں میں شاعوں کے شجر کی مانند
اپنے خاکستر سے
روشنی اور ہوس جینے کی
مجھ سے باہر مجھے خوشبو کی طرح پھیلا دے
آفتاب اقبال شمیم