ٹیگ کے محفوظات: سمولوں

ہَوا ہوں ، اپنی گرہیں آپ کھولوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 7
نہ قرضِ ناخنِ گُل ، نام کو لُوں
ہَوا ہوں ، اپنی گرہیں آپ کھولوں
تری خوشبو بچھڑ جانے سے پہلے
میں اپنے آپ میں تجھ کو سمولوں
کُھلی آنکھوں سے سپنے قرض لے کر
تری تنہائیوں میں رنگ گھولوں
ملے گی آنسوؤں سے تن کو ٹھنڈک
بڑی لُو ہے ، ذرا آنچل بھگو لوں
وہ اب میری ضرورت بن گیا ہے
کہاں ممکن رہا ، اُس سے نہ بولوں
میں چڑیا کی طرح ، دن بھر تھکی ہوں
ہُوئی ہے شام تو کُچھ دیر سولوں
چلوں مقتل سے اپنے شام ، لیکن
میں پہلے اپنے پیاروں کو تو رولوں
مرا نوحہ کناں کوئی نہیں ہے
سو اپنے سوگ میں خُود بال کھولوں
پروین شاکر

دُنیا چپ ہو جائے تو اپنے آپ سے بولوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 4
اس آشوب میں کیا انہونی سوچ رہا ہوں
دُنیا چپ ہو جائے تو اپنے آپ سے بولوں
تیر کوئی مرے رستے کاٹ دے اس سے پہلے
چار دشائیں اپنے پروں میں آج سمولوں
حال تو پوچھے چارہ گر کا دستِ گریزاں
دستک ہو تو سینے کا دروازہ کھولوں
تھک گیا لمبی رات میں تنہا جلتے جلتے
سورج نکلے اور محراب سے رُخصت ہو لوں
عرفان صدیقی