ٹیگ کے محفوظات: سمجھاؤ

شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے

راہ دکھلاؤ رات اندھیری ہے
شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے
جا رہے ہیں وہ روٹھ کر اِس وقت
ان کو سمجھاؤ رات اندھیری ہے
اب تو کچھ بھی نظر نہیں آتا
شمعِ مے لاؤ رات اندھیری ہے
پھنس ہی جائیں گے بے اماں پنچھی
جال پھیلاؤ رات اندھیری ہے
تیرگی کا ہے آنکھ پر پہرہ
اب تو آجاؤ رات اندھیری ہے
میری آنکھوں میں جل رہے ہیں دیے
یوں نہ گھبراؤ رات اندھیری ہے
چاندنی ہو شکیبؔ کی تم ہی
بُھول بھی جاؤ رات اندھیری ہے
شکیب جلالی

رسوائی سے ڈرنے والوں بات تمھی پھیلاؤ گے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 130
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رسوائی سے ڈرنے والوں بات تمھی پھیلاؤ گے
اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو! تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خوش فہمی! جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یوں شب کٹ جائے گی، جیسے تم آ جاؤ گے
زخم تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
اس کا بھلانا سہل نہیں ہے خود کو بھی یاد آؤ گے
چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں، کیوں جھوٹے اقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہوں گا، کل تم بھی پچھتاؤ گے
رہنے دو یہ پند و نصیحت ہم بھی فراز سے واقف ہیں
جس نے خود سو زخم سہے ہوں اس کو کیا سمجھاؤ گے
احمد فراز