ٹیگ کے محفوظات: سفر
دوری رہ ہے راہ بر نزدیک
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا
سفر
بارش کا اِکقطرہ آکر
میری پلک سے اُلجھا
اور آنکھوں میں ڈُوب گیا
فرد فرد
فرد فرد
گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے
پھر بھی دُنیا میں خسارہ سر بہ سر آنکھوں کا ہے
رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے
شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں
لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں
یہ ایک سینہ کہاں تک سپر کروں گا میں
لمبا سفر ہے زاد سفر کیسے چھوڑ دیں
دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں
آج میں بھی طرف دیدۂ تر چلتا ہوں
کس کو آواز لگاتا ہے کھنڈر کا وارث
وہ مہرباں پسِ گردِ سفر چلا بھی گیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا
عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا
ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا
اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
سفر
تھکے تھکے سے پاؤں
دُور منزلوں کے سلسلے عجیب سے
وہ سامنے پڑاؤ بھی
مگر نہ جانے کیوں ہر ایک بار پھیلتے رہے ہیں
سامنے نگاہ کے
یہ رنگ ہیں کہ راستے
بڑھی ہے لہر کاٹتی ہے کلبلاتی ڈوریاں
یہ لہر درد کی ہے یا کچھ اور ہے
عجیب ہے
تھکے تھکے سے پاؤں
اندھے راستوں پہ بیکراں مسافتیں
بڑھاؤ ہمتیں، کوئی بھی گیت چھیڑ دو مگر رکو نہیں
کٹے پھٹے وجود کو کسی بھی تال پر چڑھاؤ
دھڑکنوں کو جوڑ لو
یہ گیت، تال، دھڑکنیں
یہ تیرگی کا، روشنی کا فرق اور فاصلہ عجیب ہے
یہ میں ہوں میری منحنی پکار سن کے
ڈولنے لگا ہے یہ جہان کہ رہا ہے وہم دیر سے
پکارتے رہے ہیں میرے ساتھ
میرے لوگ میرے ساتھ ہیں
کہ چل رہے ہیں گرد رنگ راستے
اُمڈ رہی ہیں بدلیاں
یہ گاڑھے گاڑھے بادلوں کے غول
گرد راستوں کا میل بھی عجیب ہے
میں قید ہوں کسی گھڑی کی پھیلتی خلاؤں میں
کہ تیرتا ہے وقت ڈولتا رہا ہے زندگی کے ساتھ ساتھ جسم کی گپھاؤں میں
عجیب ہے
یہ وقت، درد، راستہ
یہ جسم بھی یہ جان بھی
یہ زندگی کا سلسلہ
عجیب ہے …