منصور آفاق ۔ غزل نمبر 123
مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا
رنگ بکھرا دیے پھر تازہ ہوا نے کیا کیا
کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے
پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرہانے کیا کیا
میں تجھے کیسے بتاؤں مری نازک اندام
مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا
میری خاموشی پہ الزام لگانے والی
کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا
کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی
شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا
میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے
مجھ کو شاداب کیا دستِ دعا نے کیا کیا
یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن
پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا
منصور آفاق