ٹیگ کے محفوظات: سرنگوں

جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہوجائے گا

دیوان اول غزل 141
کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہوجائے گا
جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہوجائے گا
خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے
قتل کرتے کرتے تیرے تیں جنوں ہوجائے گا
اس شکار انداز خونیں کا نہیں آیا مزاج
ورنہ آہوے حرم صید زبوں ہوجائے گا
بزم عشرت میں ملا مت ہم نگوں بختوں کے تیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہوجائے گا
تاکجا غنچہ صفت رکنا چمن میں دہر کے
کب گرفتہ دل مرے سینے میں خوں ہوجائے گا
کیا کہوں میں میر اس عاشق ستم محبوب کو
طور پر اس کے کسو دن کوئی خوں ہوجائے گا
میر تقی میر

یعنی کہ فلک سارا پتنگوں سے بھرا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 85
پیچوں سے اٹا دل مرا ، جنگوں سے بھرا تھا
یعنی کہ فلک سارا پتنگوں سے بھرا تھا
داتا علی ہجویری کا تھا عرس مبارک
لاہور محمدﷺ کے ملنگوں سے بھرا تھا
نکلا تھا گلستاں سے مگرخار کے ہمراہ
خوشبو کا وہ جھونکا کئی رنگوں سے بھرا تھا
اک، پاؤں کسی جنگ میں کام آئے ہوئےتھے
اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا
اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی
اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا
منصور فقط ہم ہی نہیں بہکے ہوئے تھے
بازارِ غزل سارا تلنگوں سے بھرا تھا
منصور آفاق