اندھیرا پھیل رہا ہے، چراغ کتنے ہیں
کئی کروڑ سروں میں دماغ کتنے ہیں
حقیقتوں سے سروکار ہی کسی کو نہیں
ہیں باغ چند یہاں، سبز باغ کتنے ہیں
ہے ایک شور فضا میں عجیب بے ہنگم
گنے چُنے یہاں بلبل ہیں، زاغ کتنے ہیں
جو دشمنوں سے ملے، وہ ہیں صرف گنتی کے
ملے جو ہم نفسوں سے، وہ داغ کتنے ہیں
شدید آتشیں ہوتی ہے آگہی کی شراب
جو یہ سہار سکیں وہ ایاغ کتنے ہیں
تلاش ہی نہ ہو اُس کی تو وہ نہیں موجود
جو ڈھونڈنا ہو تو اس کے سراغ کتنے ہیں
سبھی کو چاہیے دنیا سے کچھ نہ کچھ عرفان
سو تجھ سے خود نِگر و بددماغ کتنے ہیں
عرفان ستار