ٹیگ کے محفوظات: سج

صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 90
پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا
صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا
وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں
رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا
کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے
شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا
پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے
رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا
مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں
کربلا کیا موسمِ ذوالحج گیا تھا
تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی
تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا
وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے
جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا
کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر
گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا
پاؤں بڑھ بڑھ چومتے تھے اڑتے پتے
تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا
چاند تاروں نے خبر منصور دی ہے
رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا
منصور آفاق