ٹیگ کے محفوظات: سازوں

ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 250
دل کی بستی سوچتی ہے جاگتے رازوں کے بیچ
ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ
کھو گئیں میری سخن بستہ نوائیں درد میں
رہ گیا آہوں کا رقصِ مشتعل سازوں کے بیچ
ایک چڑیا سے تقاضائے وفا اچھا نہیں
جاں نثاری کی سعادت قرض شہبازوں کے بیچ
تم جسے کہتے تھے چرخ نیلگوں اک وہم تھا
گم ہوئی اس کی بلندی میری پروازوں کے بیچ
اپنے شانوں پر اٹھا رکھی تھی خود میں نے صلیب
ہے مگر تاریخ کا الزام ہمرازوں کے بیچ
ہر قدم پر کھینچ لیتا تھا کوئی اندھا کنواں
سو بسا لی اپنی بستی اپنے خمیازوں کے بیچ
شہر ہونا چاہیے تھا اس سڑک کے آس پاس
کوئی غلطی رہ گئی ہے میرے اندازوں کے بیچ
سن رہا ہوں یاد کے پچھلے پہر کی ہچکیاں
دور سے آتی ہوئی بے مہر آوازوں کے بیچ
منصور آفاق