ٹیگ کے محفوظات: زید آ

زید آ

رات کے کھیت سے پھوٹتی رُت کی خوشبو اُڑی

جسم میں آہٹیں سی ہوئیں

نوجواں فصل کو کاٹنے کے لئے

دستِ آئندہ آگے بڑھا

خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں

روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جرأتیں

سرلٹانے لگیں

زید آہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں

ورہ اس جہل کی اوٹ میں چُھپ کے بیٹھے ہوئے

کیسے بچ پائیں گے

سچ کی دوپہر

یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں

ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے

اور اپنے ہی پیچھے کھڑے

خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں

آفتاب اقبال شمیم