ٹیگ کے محفوظات: زخم بینا

زخم بینا

میں اپنے آپ کو تسلیم کر لوں

اور میرے خون میں جو ضعف کی، انکار کی گرہیں پڑی ہیں

کھول دو اُن کو

پرانے جسم کے جنگلے کو توڑ وں

اور دو رویہ فصیلوں کی گلی کی قید سے آزاد ہو کر

اپنے دائیں اور بائیں پھیل جاؤں

ساحلوں کو روندتا دریا نئی سمتوں کے معنی ڈھونڈ لے

دریافتیں ہونے کی، نہ ہونے کی ہو جائیں

بغاوت میرا مذہب کیوں نہیں

یہ روح سیسے کی طرح بھاری۔۔۔۔اُٹھانے کی سزا

میرے لئے کیوں ہے

خداوند! یہ کیسی بستیاں ہیں جن کا

مستقبل کھلا ہے

اور جن میں رہنے والے آج کی گاڑھی ہوس میں

ناف تک ڈوبے ہوئے ہیں

جن ک چہرے یوں بدلتے ہیں

کہ جیسے روز کے اخبار کی شہ سرخیاں ہوں

اشتہاروں کی فحاشی جن کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے

جنہیں ڈھلتی ہوئی عمروں کے ڈھیلے پن کا مہلک عارضہ ہے

جن کے دھڑ سے

چوب کے بازو کسی مردار خواش کی طرح لٹکے ہوئے ہیں

اور ساری جمع و تفریق کے ہندسوں کی آبادی

مرے اندر، مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے

اے خدا! اے مُردہ و زندہ زمانوں کے خدا

اِن بستوں کی دوزخیں کب سرد ہوں گی

اوریہ انبوہ کب میری گواہی دے گا

اپنے آپ کو تسلیم کر لے گا

آفتاب اقبال شمیم