ٹیگ کے محفوظات: رکھوں

چلتا رہوں سڑک پہ ابھی یا کہیں رکوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 14
کوئی نہیں مجھے جو بتائے میں کیا کروں
چلتا رہوں سڑک پہ ابھی یا کہیں رکوں
ممکن نہیں ہے اس سے کوئی بات ہو سکے
ممکن نہیں ہے اس کا کہیں نام لے سکوں
اس شہرناشناس میں کوئی نہیں مرا
دستک کہاں پہ دوں میں کسے جا کے کچھ کہوں
کب تک امیدرکھوں کہ اترے گا وہ ابھی
کب تک میں آسماں کی طرف دیکھتا رہوں
آنچل شبِ فراق کا اب کاٹنے لگا
میرا خیال ہے یہ ستارے میں نوچ لوں
بارش ہوا کے دوش پہ کمروں تک آگئی
گملے برآمدے کے چھپا کر کہاں رکھوں
منصور مشورہ یہی بہتر ہے دھوپ کا
اب شامِ انتظار اٹھا کرمیں پھینک دوں
منصور آفاق