ٹیگ کے محفوظات: رونق کا شگون

رونق کا شگون

دھوپ مدھم تھی

ہوا کی منجمد شاخوں سے سانسیں توڑنا دشوار تھا

اور چوبَ خشک سے لٹکے ہوئے پتے کی آنکھ

اپنے آئینے میں تکتی تھی ہمیں

ہم تہی دستوں نے گلیوں کے خس و خاشاکگھر کے صحن میں جمع کئے

جسم کی دح سے مٹ جانے سے پہلے

خون کے گرتے شرارے سے اُگایا

سبز موسم کے الاؤ کا شجر

منظرِ روپوش کے آثار سے

سب کی آنکھوں کی گزرگاہیں معطر ہو گئیں

اور ہم نے نارسا پیغام بھیجا آسماں کے نام پر

اے خدا!

اب نہ آئے بادزاروں کی ہوا

مشرق و مغرب کے پھیلے فاصلے کی سمت سے

ورنہ ان چنگاریوں کے پھول گلشن کو جلا سکتے بھی ہیں

آفتاب اقبال شمیم