ٹیگ کے محفوظات: رولتے

عجیب شہر ہے، سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں

نہ سوچتے ہیں نہ میزان_دل پہ تولتے ہیں
عجیب شہر ہے، سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
پرکھنے والا نہیں کوئی اے دیار_سخن
فضول ہم تری گلیوں میں لعل رولتےہیں
ہر ایک شب میں کئی بار آنکھ کھلنے پر
نجانے چونک کے پہلو میں کیا ٹٹولتے ہیں
ابدکے بعد ہے کیا، اور ازل سے قبل تھا کیا
اگر کہو تو ابھی ہم یہ راز کھولتے ہیں
وجود کیا ہے بجز اک حباب_ آب_ گماں
چلو بہ سطح_ عدم تھوڑی دیر ڈولتے ہیں
عرفان ستار

ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 501
دل میں پڑی کچھ ایسی گرہ بولتے ہوئے
ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے
سارے نکل پڑے تھے اسی کے حساب میں
بچوں کی طرح رو پڑی دکھ تولتے ہوئے
میں کیا کروں کہ آنکھیں اسے بھولتی نہیں
دل تو سنبھل گیا ہے مرا ڈولتے ہوئے
کہنے لگی ہے آنکھ میں پھر مجھ کو شب بخیر
پانی میں شام اپنی شفق گھولتے ہوئے
کنکر سمیٹ لائے ہمیشہ مرا نصیب
منصور موتیوں کو یونہی رولتے ہوئے
منصور آفاق