ٹیگ کے محفوظات: رفتنی

جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں

فکر کیا کرتا ہے تو آئند کی؟
جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں
خود کو ننگا حرصِ شہرت میں کیا
بھر بھی حالت دیدنی تیری نہیں
جا اتار اب جسم کی یہ کینچلی!
روح کی یہ اوڑھنی تیری نہیں
دوسروں سے کیا نبھا پائے گا تو
اپنی تک خود سے بنی تیری نہیں
تیر بھی تیرا کماں بھی ہے تری
تیر پر لیکن انی! تیری نہیں
تو بھی سرقہ باز نکلا! ہائے ہائے
چاند تیری روشنی تیری نہیں
غصے میں یاؔور نہ کر تو شاعری
لہجے کی یہ سنسنی تیری نہیں
یاور ماجد

ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی

دیوان پنجم غزل 1730
بسکہ ہے گردون دوں پرور دنی
ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی
بزم میں سے اب تو چل اے رشک صبح
شمع کے منھ پر پھری ہے مردنی
میں چراغ صبح گاہی ہوں نسیم
مجھ سے اک دم کے لیے کیا دشمنی
مجھ سا محنت کش محبت میں نہیں
ہر زماں کرتا رہا ہوں جاں کنی
کچھ گدا شاعر نہیں ہوں میر میں
تھا مرا سرمشق دیوان غنیؔ
میر تقی میر