ٹیگ کے محفوظات: رستے

تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 63
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں
بہار آئی تو اک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جھڑتے تھے پھول ہنستے میں
کہاں کے مکتب و مُلّا، کہا ں کے درس و نصاب
بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں
ملا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں
یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں
ہر ایک در خورِ رنگ و نمو نہیں ورنہ
گل و گیاہ سبھی تھے صبا کے رستے میں
ہے زہرِ عشق، خمارِ شراب آگے ہے
نشہ بڑھاتا گیا ہے یہ سانپ ڈستے میں
جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فراز ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں
احمد فراز

اچھے ہوتے نہیں جگر خستے

دیوان سوم غزل 1266
ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے
اچھے ہوتے نہیں جگر خستے
ہنستے کھینچا نہ کیجیے تلوار
ہم نہ مر جائیں ہنستے ہی ہنستے
شوق لکھنے قلم جو ہاتھ آئی
لکھے کاغذ کے دستے کے دستے
سیر قابل ہیں تنگ پوش اب کے
کہنیاں پھٹتے چولیاں چستے
رنگ لیتی ہے سب ہوا اس کا
اس سے باغ و بہار ہیں رستے
اک نگہ کر کے ان نے مول لیا
بک گئے آہ ہم بھی کیا سستے
میر جنگل پڑے ہیں آج جہاں
لوگ کیا کیا نہیں تھے کل بستے
میر تقی میر

دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 272
چل پڑے دار و رسن کو ہنستے ہنستے سینکڑوں
دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں
یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام
آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں
روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے
چلنے والے کے لیے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں
میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی
تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں
دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار
کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں
منصور آفاق

آدمی ہو گئے ہیں کیوں سستے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 16
اے با انوار خویش سر مستے
آدمی ہو گئے ہیں کیوں سستے
سنگ پڑتے نہ خوش دماغوں پر
کاش تیری گلی میں جا بستے
تیرے ہی گلستاں سے لائے ہیں
دہر کے گل فروش، گلدستے
تیرے ہی در پہ ختم ہوتے ہیں
آزمائے ہیں ہم نے سب رستے
تیرے رحم و کرم پہ زندہ ہیں
جاں شکستے دل و جگر خستے
تیری رحمت بھری نظر ہوتی
ہم غریبوں پہ لوگ کیوں ہنستے
دشت کی ریت یاد آتی ہے
ہم بھی اپنی کبھی کمر کستے
تیرے عشاق کی تلاش میں ہیں
پھر مسلمان فوج کے دستے
میں نے منصور دار دیکھی ہے
عشق پراں بود بیک جستے
منصور آفاق