پرندہ
دھوپ کے دو چار تنکے
نیم وا منقار میں تھامے ہوئے اترا ہے
خواہش کی بلندی سے
بدن میں کپکپاتے بادلوں کا سرمئی ہیجان پھیلا ہے
وہ اترا ہے
کسی بے نام ساحل پر
ہوا کی چند خود رو جھاڑیوں کے درمیاں اپنے نشیمن میں
(جہاں اُس کی اڑانیں ختم ہوتی ہیں)
سمندر سامنے ہے
اور آنکھوں کے سفینے میں پڑا ہے بادباں لپٹا ہوا
فردا کے سائے میں
وہی ٹھہری ہوئی تصویر کچھ بے صرفہ خوابوں کی
وہی اُس کی پرانی جستجو۔۔۔۔
تخلیق کے اوجِ مقدس سے
اُتر کر حسنِ خوابیدہ کے پہلو میں سحر تک ریت کے بستر پہ سونے کی
تمنا کے صدف میں روشنی کی پرورش کرتی ہوئی لہریں
اُسے ویرانیوں کے چاند کی دف پر
وصال و ہجر کے نغمے سناتی ہیں
سمندر سامنے ہے
اور اس اسرار کی تاریک وسعت میں
اسے کل اور پرسوں بھی
سفر کی قوس پر ایک دودھیا سے نقش کی مانند اُڑنا ہے
وہ کیا ہے؟
کیا خبر بے معنویت کے سفر کا استعارہ ہو
زمیں کی رات میں بھٹکا ہوا
کوئی ستارہ ہو