منصور آفاق ۔ غزل نمبر 138
مرے دماغ کے سب عنکبوت آخرِ شب
بنے ہوئے ہیں بڑے راجپوت آخرِ شب
عشائے غم میری خیرہ سری میں گزری ہے
سو پڑھ رہا ہوں دعائے قنوت آخرِ شب
اداسیوں کے تنفس میں میرے اندر سے
نکل پڑا ہے عدم کا سکوت آخرِ شب
لکھا گیا تھا مجھے آسماں پہ کرنوں سے
ہوا ہے خاک پہ میرا ہبوط آخرِ شب
میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں
ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب
دبا دیا تھا افق میں امید کا پتہ
نکل پڑا ہے کوئی شہ بلوط آخرِ شب
ہزار رنگ جہنم کے دیکھتا ہوں میں
کیا ہے موت کا منظر حنوط آخرِ شب
بدن پہ دھوپ کا آسیب دیکھ کر منصور
چرا کے برف کے لے آیا بھوت آخرِ شب
منصور آفاق