ٹیگ کے محفوظات: دہانوں

گمرہی تھی عجب اُڑانوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 141
برق اُتری جب آشیانوں میں
گمرہی تھی عجب اُڑانوں میں
مرحلے پر مری صفائی کے
لکنتیں آ گئیں زبانوں میں
دھاڑ ہی شیر کی کُچھ ایسی تھی
شل تھے صّیاد سب مچانوں میں
غار کے بطن کی سیاہی نے
دیو درباں کیے دہانوں میں
جانے موزوں نہ کیوں ہوئے ماجدؔ
تیر جتنے چڑھے کمانوں میں
ماجد صدیقی

یہ فسانہ رہا زبانوں پر

دیوان ششم غزل 1822
دل گئے آفت آئی جانوں پر
یہ فسانہ رہا زبانوں پر
عشق میں ہوش و صبر سنتے تھے
رکھ گئے ہاتھ سو تو کانوں پر
گرچہ انسان ہیں زمینی ولے
ہیں دماغ ان کے آسمانوں پر
شہر کے شوخ سادہ رو لڑکے
ظلم کرتے ہیں کیا جوانوں پر
عرش و دل دونوں کا ہے پایہ بلند
سیر رہتی ہے ان مکانوں پر
جب سے بازار میں ہے تجھ سی متاع
بھیڑ ہی رہتی ہے دکانوں پر
لوگ سر دیتے جاتے ہیں کب سے
یار کے پاؤں کے نشانوں پر
کجی اوباش کی ہے وہ دربند
ڈالے پھرتا ہے بند شانوں پر
کوئی بولا نہ قتل میں میرے
مہر کی تھی مگر دہانوں پر
یاد میں اس کے ساق سیمیں کی
دے دے ماروں ہوں ہاتھ رانوں پر
تھے زمانے میں خرچی جن کی روپے
ٹھانسا کرتے ہیں ان کو آنوں پر
غم و غصہ ہے حصے میں میرے
اب معیشت ہے ان ہی کھانوں پر
قصے دنیا میں میر بہت سنے
نہ رکھو گوش ان فسانوں پر
میر تقی میر