ٹیگ کے محفوظات: دھنا

مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے

آپ برہم نہ یوں ہوا کیجے
مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے
خوب صورت اگر دِکھائی دیں
ہم پہ پتھّر اُٹھا لیا کیجے
حُسن حیرت کا پیش خیمہ ہے
اِس عقیدے پہ سر دُھنا کیجے
ہم تکلّف کو بھول جاتے ہیں
آپ بھی دل ذرا بڑا کیجے
یہ ہے دنیا یہاں شکاری ہیں
اپنے اندر ہی اب اُڑا کیجے
سب درختوں پہ بُور آنے لگے
یار! ایسی کوئی دُعا کیجے
بات کرنا اگر نہیں آتا
خامشی کو ہرا بھرا کیجے
افتخار فلک

بے درد سر بھی صبح تلک سر دھنا کیا

دیوان اول غزل 151
قصہ تمام میر کا شب کو سنا کیا
بے درد سر بھی صبح تلک سر دھنا کیا
مل چشم سے نگہ نے دھتورا دیا مجھے
خس بھر نہ چھوڑا دل کو میں تنکے چنا کیا
میر تقی میر