منصور آفاق ۔ غزل نمبر 359
یہ راہِ محبت ہے ساتھی اس راہ پہ جو بھی آتے ہیں
وہ راہ کے ہرہر کاٹنے پر کچھ خونِجگر ٹپکاتے ہیں
اس دور کا ہم سرمایہ ہیں ہم اہل جنوں ہم اہل وفا
ہم کرب میں ڈوبی دنیا کو پھر کرب و بلا میں لاتے ہیں
تم لوگ فرازِ منبر سے شبیر پہ بس تقریر کرو
ہم رند اُتر کر میداں میں پھررسم وہی دھراتے ہیں
تاریخ کا یہ دوراھا ہے اک سمت وفا اک سمت جفا
کچھ جاہ و حشم کے راہی ہیں ،، کچھ دارورسن کو جاتے ہیں
یہ لوح و قلم کے مفتی کا منصورازل سے فتویٰ ہے
جو زخمِ جگر کو بوسے دیں وہ لوگ مرادیں پاتے ہیں
منصور آفاق