ٹیگ کے محفوظات: دکھلائیں

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 108
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھر کئے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 9
دل میں باقی ہیں وہی حرصِ گناہ
پھر کئے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا
آؤ اس کو لیں ہمیں جا کر منا
اس کی بے پروائیوں پر جائیں کیا
جانتا دنیا کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا
مان لیجئے شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلائیں کیا
ہو چکے حالیؔ غزلخوانی کے دن
راگئی بے وقت کی اب گائیں کیا
الطاف حسین حالی

عم ہستی کوئی غم کھائیں کیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 67
ان کو دل کا مدعا سمجھائیں کیا
اے غم ہستی کوئی غم کھائیں کیا
شورِ نغمہ اس طرف آتا نہیں
رنگِ محفل بن کے ہم اڑ جائیں کیا
بے نیازی سے ہے قائم شان حسن
ہم انہیں یاد آئیں پر یاد ئیں کیا
جل کے بجھنے کا تو باقیؔ غم نہیں
ہم مگر دنیا کو منہ دکھلائیں کیا
باقی صدیقی