ٹیگ کے محفوظات: دِیا وہ بجھ گیا ہے

دِیا وہ بجھ گیا ہے

ہواؤ … !!!

کس دِیے کی لَو پہ تم نے

ہاتھ رکھا ہے

سسکتے ، ڈولتے ، تاریک منظر کو

ہماری نم گزیدہ آنکھ نے مشکل سنبھالا ہے

یہ کیا کہ ننھے جھونکے نے

شبستاں پھونک ڈالا ہے

دِیا وہ جس کے در سے

روشنی جب دان میں ملتی

تو حرفوں کے سیہ اندھیر رستوں سے

اُجالے پھوٹ پڑتے تھے

دِیا وہ بجھ گیا ہے

دِیا وہ بجھ گیا ہے اور دھواں

اِک سیدھی ، سوکھی شاخ کے جیسے

چٹختا ہے

ذرا سوچو

دھویں کی شاخ سے

بل کھا کے ٹوٹے

ننھے مرغولے کا جیون

کتنا ہوتا ہے

تو ہم بھی روشنی کے سارے چہرے

کاغذوں کے خالی خاکوں میں

سجا کر بھول جائیں گے

مگر پھر یوں کسی تاریک شب میں

جب کوئی روشن ستارہ

ٹوٹ جائے گا

ہمیں یہ دھند میں رکھا

دِیا بھی

یاد آئے گا …

گلناز کوثر